نیوز ہائیلائٹس

گمشدہ سوناروس کے صوبہ کیمیروو کے گورنر امان تولی ایو نے صوبے کے باشندوں سے اپیل کی ہے کہ کولچاک کا گمشدہ سونا تلاش کریں۔ان کو امید ہے کہ اگر کسی کو اس مہم میں کامیابی نصیب ہو گئی تو اس خزانے کا آدھا حصہ صوبے کے بجٹ میں شامل کیا جا سکے گا۔1917 میں روسی سلطنت میں انقلاب آ گیا تھا۔ خانہ جنگی شروع ہو گئی تھی۔ بالشویکوں کے خلاف لڑنے والے ایک دھڑے کی سرکردگی ایڈمرل الیکساندر کولچاک کر رہے تھے۔1918 میں انہیں روس کا حکمران اعلٰی قرار دے دیا گیا تھا۔ ملک میں محفوظ سونے کے ذخیرے کا ایک بڑا حصہ ان کے ہاتھوں میں تھا۔ یاد دلادیں کہ پہلی جنگ عظیم سے پہلے روس دنیا میں مقدار کے حوالے سے سونے کا تیسرا بڑا حامل ملک تھا۔جلد ہی الیکساندر کولچاک کو گرفتار کر کے گولی مار دی گئی تھی۔ سونا سوویت حکومت کے ہاتھ لگ گیا تھا لیکن اس میں تب کے حساب سے تئیس کروڑ ساٹھ لاکھ ڈالر کا سونا کم تھا۔ یہ سونا کہاں چلا گیا محقق اس کے بارے میں جاننے کی خاطر تقریبا” ایک سو سال سے سر کھپا رہے ہیں۔پرانی دستاویزات کے مطابق سونے کا ایک حصہ ایڈمرل نے فوج کی دیکھ ریکھ پہ خرچ کر دیا تھا۔ کچھ حصہ کولچاک نے چھپا دیا تھا۔ اس بارے میں بہت زیادہ روایات ہیں کہ سونا کہاں مدفون ہو سکتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ جھیل بیکال کی تہہ میں ہے یا پھر سائبیریا کے شہروں تیومن یا سورگوت میں چھپا ہوا ہے۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ سونا سائیبیریا کے ایک چھوٹے شہر تائگا کے نواح میں مدفون کیا گیا تھا۔یہاں 1919 میں کولچاک کی فوج نے قیام کیا تھا۔ ان کے ساتھ سونے کے 29 چھکڑے تھے۔ تاریخی شواہد کے مطابق تائگا کے سٹیشن پر سونے کے 26 صندوق گم ہو گئے تھے۔ مزید تیرہ صندوق اس سے اگلے سٹیشن سے غائب ہوئے تھے۔صوبہ کیمیروو کے گورنر امان تولی ایو نے انہیں صندوقوں کو ڈھونڈ نکالنے کی عوام سے اپیل کی ہے۔ مگر سائبیریا میں سونے کے خزینے سے متعلق قصے اتنے زیادہ اور متضاد ہیں کہ ان میں سے جھوٹے سچے قصوں کو علیحدہ کیا جانا ممکن نہیں۔ ایک قصہ یہ ہے کہ سونا دفن کرنے کا کام ایک قاصد کو سونپا گیا تھا، جس نے جگہ کی نشانی ذہن میں رکھ لی تھی۔ بہت سالوں بعد اس نے خود وہاں سے سونا تلاش کرنے کی سعی کی تھی۔ اس کے بعد اس کی نشان زدہ جگہ پہ کئی بار سوویت خفیہ ایجنسیوں نے بھی کھدائی کی تھی۔دوسرا موقف یہ ہے کہ سونا کولچاک کے ایک جنرل نے چھپایا تھا۔ اس نے سونا ایک جہاز پر لاد کر دریا میں ایک محفوظ مقام پہ پہنچا دیا تھا۔ تیسرا موقف یہ ہے کہ کولچاک کے اہلکاروں نے ہی اس کا ساڑھے آٹھ سو کلوگرام سے زیادہ سونا چرا لیا تھا۔ چونکہ سردیاں تھیں اس لیے انہوں نے سونا چھپناے کی خاطر گڑھے کھودنے کی مشقت نہیں کی تھی بلکہ سونے کی اینٹیں اور دیگر قیمتی اشیاء کئی جھیلوں میں سے ایک میں غرق کر دیے تھے۔ایک سو سال سے کولچاک کا سونا تلاش کرنے کی خاطر سائبیریا کے تائیگا میں دسیوں مہمات میں شامل لوگ جان مار چکے ہیں۔ دانشور کولچاک کی سوانح حیات پڑھ کر اندازہ لگانے کی کوششیں کرتے رہے ہیں کہ خزانہ کہاں مدفون ہوگا۔ کبھی یہاں سے تو کبھی وہاں سے خزانہ تلاش کرنے والوں کو سونے کی ایک ڈلی جس پر زار کی مہر کندہ تھی یا کوئی سونے کا سکہ ضرور ملا لیکن سب نے نفی کر دی کہ یہ وہ نہیں ہے۔ سونے سے بھرے گمشدہ صندوق اب تک دستیاب نہیں ہو سکے ہیں۔ ممکن ہے کہ گورنر موصوف کی اپیل سے خزانے میں دلچسپی لیے جانے کی ایک نئی لہر پیدا ہو اور کولچاک کا گمشدہ سونا تلاش کر لیا جائے۔

...

حکومت کی طرف سے تحفہ عید

پٹرولیم مصنوعات کی نئی قیمتوں کا نوٹیفیکیشن جاری پٹرول کی قیمت میں 9 روپے 66 پیسے فی لیٹر اضافہ کا فیصلہ، نوٹیفیکیشن ڈیزل کی قیمت میں 3 روپے 32 پیسے...

کیا آپ ان سات سوالوں کے جواب جانتے ہیں ؟

سوال نمبر ۔1:جنت کہاں ہے؟ جواب:جنت ساتوں آسمانوں کے اوپر ساتوں آسمانوں سے جدا ہے،کیونکہ ساتوں آسمان قیامت کے وقت فنا اور ختم ہونے والے ہیں،جبکہ جنت کو...

انٹرنیشنل

گمشدہ سوناروس کے صوبہ کیمیروو کے گورنر امان تولی ایو نے صوبے کے باشندوں سے اپیل کی ہے کہ کولچاک کا گمشدہ سونا تلاش کریں۔ان کو امید ہے کہ اگر کسی کو اس مہم میں کامیابی نصیب ہو گئی تو اس خزانے کا آدھا حصہ صوبے کے بجٹ میں شامل کیا جا سکے گا۔1917 میں روسی سلطنت میں انقلاب آ گیا تھا۔ خانہ جنگی شروع ہو گئی تھی۔ بالشویکوں کے خلاف لڑنے والے ایک دھڑے کی سرکردگی ایڈمرل الیکساندر کولچاک کر رہے تھے۔1918 میں انہیں روس کا حکمران اعلٰی قرار دے دیا گیا تھا۔ ملک میں محفوظ سونے کے ذخیرے کا ایک بڑا حصہ ان کے ہاتھوں میں تھا۔ یاد دلادیں کہ پہلی جنگ عظیم سے پہلے روس دنیا میں مقدار کے حوالے سے سونے کا تیسرا بڑا حامل ملک تھا۔جلد ہی الیکساندر کولچاک کو گرفتار کر کے گولی مار دی گئی تھی۔ سونا سوویت حکومت کے ہاتھ لگ گیا تھا لیکن اس میں تب کے حساب سے تئیس کروڑ ساٹھ لاکھ ڈالر کا سونا کم تھا۔ یہ سونا کہاں چلا گیا محقق اس کے بارے میں جاننے کی خاطر تقریبا” ایک سو سال سے سر کھپا رہے ہیں۔پرانی دستاویزات کے مطابق سونے کا ایک حصہ ایڈمرل نے فوج کی دیکھ ریکھ پہ خرچ کر دیا تھا۔ کچھ حصہ کولچاک نے چھپا دیا تھا۔ اس بارے میں بہت زیادہ روایات ہیں کہ سونا کہاں مدفون ہو سکتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ جھیل بیکال کی تہہ میں ہے یا پھر سائبیریا کے شہروں تیومن یا سورگوت میں چھپا ہوا ہے۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ سونا سائیبیریا کے ایک چھوٹے شہر تائگا کے نواح میں مدفون کیا گیا تھا۔یہاں 1919 میں کولچاک کی فوج نے قیام کیا تھا۔ ان کے ساتھ سونے کے 29 چھکڑے تھے۔ تاریخی شواہد کے مطابق تائگا کے سٹیشن پر سونے کے 26 صندوق گم ہو گئے تھے۔ مزید تیرہ صندوق اس سے اگلے سٹیشن سے غائب ہوئے تھے۔صوبہ کیمیروو کے گورنر امان تولی ایو نے انہیں صندوقوں کو ڈھونڈ نکالنے کی عوام سے اپیل کی ہے۔ مگر سائبیریا میں سونے کے خزینے سے متعلق قصے اتنے زیادہ اور متضاد ہیں کہ ان میں سے جھوٹے سچے قصوں کو علیحدہ کیا جانا ممکن نہیں۔ ایک قصہ یہ ہے کہ سونا دفن کرنے کا کام ایک قاصد کو سونپا گیا تھا، جس نے جگہ کی نشانی ذہن میں رکھ لی تھی۔ بہت سالوں بعد اس نے خود وہاں سے سونا تلاش کرنے کی سعی کی تھی۔ اس کے بعد اس کی نشان زدہ جگہ پہ کئی بار سوویت خفیہ ایجنسیوں نے بھی کھدائی کی تھی۔دوسرا موقف یہ ہے کہ سونا کولچاک کے ایک جنرل نے چھپایا تھا۔ اس نے سونا ایک جہاز پر لاد کر دریا میں ایک محفوظ مقام پہ پہنچا دیا تھا۔ تیسرا موقف یہ ہے کہ کولچاک کے اہلکاروں نے ہی اس کا ساڑھے آٹھ سو کلوگرام سے زیادہ سونا چرا لیا تھا۔ چونکہ سردیاں تھیں اس لیے انہوں نے سونا چھپناے کی خاطر گڑھے کھودنے کی مشقت نہیں کی تھی بلکہ سونے کی اینٹیں اور دیگر قیمتی اشیاء کئی جھیلوں میں سے ایک میں غرق کر دیے تھے۔ایک سو سال سے کولچاک کا سونا تلاش کرنے کی خاطر سائبیریا کے تائیگا میں دسیوں مہمات میں شامل لوگ جان مار چکے ہیں۔ دانشور کولچاک کی سوانح حیات پڑھ کر اندازہ لگانے کی کوششیں کرتے رہے ہیں کہ خزانہ کہاں مدفون ہوگا۔ کبھی یہاں سے تو کبھی وہاں سے خزانہ تلاش کرنے والوں کو سونے کی ایک ڈلی جس پر زار کی مہر کندہ تھی یا کوئی سونے کا سکہ ضرور ملا لیکن سب نے نفی کر دی کہ یہ وہ نہیں ہے۔ سونے سے بھرے گمشدہ صندوق اب تک دستیاب نہیں ہو سکے ہیں۔ ممکن ہے کہ گورنر موصوف کی اپیل سے خزانے میں دلچسپی لیے جانے کی ایک نئی لہر پیدا ہو اور کولچاک کا گمشدہ سونا تلاش کر لیا جائے۔

قدیم چینی دور کی کہانی ہے ۔ کہتے ہیں کسی گاؤں میں ایک بوڑھا اپنے نوجوان بیٹے کے ساتھ رہتا تھا۔ پرانا سا ایک مکان تھا، ایک کمرے میں باپ بیٹا رہتے ، دوسرے کمرے کو اصطبل بنایا ہوا تھا، وہاں ان کا گھوڑا رہتا ہے ۔ یہ گھوڑا بڑا شاندار اور نہایت اعلیٰ نسل کا تھا۔ بہت پہلے بوڑھے کسان کے ہاتھ ایک گھوڑے کا بچہ لگا، اس نے باپ کی طرح اسے پالا ۔ بڑا ہو کر اس گھوڑے کی خوبصورتی کی دھوم مچ گئی۔ دور دور سے لوگ اسے دیکھنے آتے ۔ گاؤں کے رئیس نے اسے دیکھا تو پہلی نظر میں فریفتہ ہو گیا، اس نے بوڑھے کو بلا کر منہ مانگی قیمت کی پیش کش کی۔ کسان نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ وہ گھوڑا نہیں ، میرا بیٹا ہے ، اپنی اولاد کو کوئی فروخت نہیں کرتا۔اور بھی لوگوں نے خریدنے کی کوشش کی ، سب ناکام رہے ۔ گاؤں کے کچھ سمجھدار لوگوں نے بوڑھے کو سمجھایا کہ تم غریب آدمی ہو، ایسے اعلیٰ گھوڑے کو کتنی دیر تک سنبھال کر رکھ لو گے ، اچھی قیمت مل رہی ہے ، بیچ ڈالو، کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی یہ گھوڑا چرا کر لے جائے ۔ ایسے ہر مشورے کے جواب میں وہ بابا جی مسکرا دیتے اور بس، بات ختم  ہو جاتی۔ایک دن بوڑھا کسان اور اس کا بیٹا حسب معمول صبح اٹھے تو دیکھا کہ ساتھ والے کمرے کا دروازہ کھلا اور گھوڑا غائب ہے ۔ پریشان ہو کر آس پاس دیکھا، مگر کوئی سراغ نہ ملا۔ بستی والوں کو پتہ چلا تو وہ افسوس کرنے آئے ۔ جن لوگوں نے گھوڑا بیچنے کا مشورہ دیا تھا، انہوں نے فٹ سے طعنہ دیا کہ تمہیں سمجھایا تو تھا کہ گھوڑا بیچ دو ، اس وقت نہیں مانے ۔ اب تمہاری بدقسمتی کہ بغیر کچھ لئے گھوڑا گنوا بیٹھے ۔ کسان یہ سب باتیں سنتا رہا، پھر بڑے اطمینان سے بولا، بھائیو، تمہاری بڑی مہربانی کہ میرے پاس آئے ، اپنی ہمدردی کا اظہار کیا، مگر مجھے یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ اس میں بدقسمتی کہاں سے آ گئی۔ یہ درست ہے کہ میرے پاس گھوڑا تھا، جو مجھے اپنی اولاد کی طرح عزیز تھا، آج صبح وہ گھوڑا اپنے کمرے سے غائب ہے ۔ اس حد تک تو یہ بات درست ہے، مگر اس کے بارے میں ابھی سے یہ کیسے طے کر لیا گیا کہ یہ بدقسمتی ہے ؟ گاؤں والے بڑے حیران ہوئے ، آپس میں کہنے لگے کہ شائد صدمے کی وجہ سے بابے کا دماغ چل گیا ہے ، یہ بدقسمتی نہیں تو اور کیا ہے کہ ہزاروں کی مالیت کا گھوڑا چوری ہو گیا۔ بڑبڑاتے ہوئےسب لوگ واپس چلے گئے ۔ دو تین دن بعد اچانک وہ گھوڑا واپس آ گیا، اپنے ساتھ وہ جنگل سے صحت مند، اعلیٰ نسل کے اکیس نوجوان گھوڑے بھی لے آیا۔ گاؤں میں دھوم مچ گئی۔ لوگ آ کر بوڑھے کو مبارکبادیں دینے لگے۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ ہم نے اس روز غلط بات کی تھی، گھوڑے کا چلا جانا بدقسمتی نہیں تھی، اصل میں توتمہاری خوش قسمتی تھی، آج پورے اکیس گھوڑے تمہارے گھر آ گئے ۔ کسان نے حیرت سے یہ سب تبصرے سنے اور پھر کہا، بھائیوِ، مجھے ایک بار پھر تمہاری باتوں کی سمجھ نہیں آئی، میرا گھوڑا واپس آ گیا، یہ درست ہے کہ وہ اکیس گھوڑ ے لے آیا ہے ، مگر اس میں خوش قسمتی کی کیا بات ہے ؟گاؤں والے یہ سن کر اپنا سا منہ لے کر رہ گئے ۔ چند دن گزرگئے ، کسان کا بیٹا ان جنگلی گھوڑوں کو سدھانے کی کوششوں میں مصروف تھا، ایک دن ایک سرکش گھوڑے نے اسے ایسی پٹخنی دی کہ اس کی ٹانگ ہی ٹوٹ گئی، طبیب نے دیکھا بھالا اور تین مہینوں کے لئے بستر پر آرام کی ہدایت کی۔ ایک بار پھر گاؤں امنڈ آیا۔ ہر ایک نے بوڑھے کے ساتھ ہمدردی کی۔ چند ایک نے صاف گوئی کے ساتھ اعتراف کیا کہ باباجی آپ ہی ٹھیک تھے ، ان اکیس گھوڑوں کا آنا خوش قسمتی نہیں بلکہ درحقیقت بدقسمتی کا اشارہ تھا۔ آپ کا اکلوتا سہارا ، نوجوان بیٹا زخمی ہو گیا، نجانے اس کی ٹانگ درست طور پر جڑ تی بھی ہے یا نہیں ، آپ بوڑھے بندے ہو، تمام کام کاج بیٹا کرتا تھا، اب مشکل ہو گی، آپ کی قسمت خراب ہے کہ ایسا ہو گیا۔ بوڑھے کسان نے یہ سن کر ٹھنڈی سانس بھری اور قدرے جھنجھلاہٹ کے ساتھ کہا ، یارو ہر واقعے میں خوش قسمتی یا بدقسمتی نہ ڈھونڈ لیا کرو، جو بات جتنی ہے ، اتنی ہی بیان کرو، اتنی قطعیت سے کوئی فیصلہ کن رائے نہ دیا کرو، میرا بیٹا گر کر ٹانگ تڑوا بیٹھا، اس حد تک تو تمہاری بات درست ہے ، باقی خوش قسمتی یا بدقسمتی کا حتمی فیصلہ ابھی ہونا باقی ہے ، قدرت ہی اس کے بارے میں بہتر جانتی ہے ۔دو تین ہفتے گزرے ، اچانک ہی جنگ چھڑ گئی، قریبی ملک کی فوج نے حملہ کر دیا۔ بادشاہ نے جبری بھرتی کا حکم دیا۔ ریاستی اہلکار دوسرے دیہات کی طرح اس گاؤں میں بھی آئے اور بوڑھے کسان کے زخمی بیٹے کے سوا ہر نوجوان کو پکڑ کر لے گئے ۔ گاؤں والے روتے پیٹتے بابے کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ ہم تو تمہیں بےوقوف سمجھتے تھے ، تم تو ہم سب سے زیادہ سیانے نکلے ۔ واقعی تمہارے بیٹے کا حادثہ بدقسمتی نہیں تھا۔ سچ پوچھو تو تمہاری انتہائی خوش قسمتی تھی، ہم سب کے بیٹے جنگ لڑنے چلے گئے ، معلوم نہیں واپس لوٹتے بھی  ہیں کہ نہیں تمہارا بیٹا تو چلو تین چار ماہ میں ٹھیک ہوجائے گا۔ بوڑھے کسان کے پاس سوائے سر پیٹنے کے کوئی چارہ نہیں تھا، بے چارگی سے اس نے کہا، بھائیو اگر تم لوگ اصل بات کو سمجھ لیتے تو کبھی اتنا پریشان نہیں ہوتے ۔ ہم سب بہت جلدی کسی واقعے پر خوش قسمتی ، بدقسمتی کا لیبل لگا دیتے ہیں ، حالانکہ یہ سب تصویر کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ہوتے ہیں ، ہم میں سے کسی کے پاس مکمل تصویر نہیں ، تصویر کا ایک ٹکڑا ہی ہوتا ہے ۔ اسی ٹکڑے کو ہم مکمل تصویر سمجھ لیتے ہیں ۔ ایک ٹکڑا کبھی تصویر کو درست طریقے سے بیان نہیں کر سکتا، اس کے رنگ تک نہیں بتا سکتا۔ ہمیں حتمی رائے دینے کے بجائے انتظار کرنا چاہیے ، جو واقعہ ہوا ہے ، اسے اتنا ہی سمجھنا اور ماننا چاہیے ۔

غزہ کے جنوب میں رفح پر اسرائیلی بمباری کے بعد کا اندوہناک منظر (آرکائیوز – رائٹرز)رفح پر حملہ کرنے سے پہلے شہری انخلاء کی کارروائیوں میں ہفتے لگیں گے : اسرائیلی ذریعہغزہاسرائیلی نشریاتی ادارے نے پیر کے روز ایک فوجی ذریعے کے حوالے سے بتایا کہ ماہ رمضان کی آمد سے غزہ کی پٹی میں جاری جنگ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، باوجود اس کے کہ جنگ بندی کے معاہدے تک پہنچنے کی کوشش کی گئی ہے۔”انخلاء میں ہفتے لگیں گے۔”ذرائع نے مزید کہا کہ ممکنہ زمینی کارروائی کی تیاری کے لیے رفح کے علاقے سے مکینوں کو نکالنے کے عمل میں چند ہفتے لگیں گے۔ واضح رہے کہ حماس “رفح پر زمینی حملے کو روکنے کے لیے اپنی بہترین کوششیں کر رہی ہے۔”ذرائع نے یہ بھی کہا کہ اسرائیل میں سیکیورٹی سروسز کا خیال ہے کہ حماس کے رہنما یحییٰ سنوار “مسجد اقصیٰ کے گرد تناؤ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے رمضان کے مہینے کو مذہبی جنگ میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔””انروا کو تحلیل کرنا حماس کے خاتمے میں معاون ہے۔”اتھارٹی نے ذرائع کے حوالے سے یہ بھی کہا کہ اسرائیلی سیکیورٹی سروسز کا خیال ہے کہ فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی (انروا) کو تحلیل کرنے اور اس کا متبادل تلاش کرنے سے غزہ کی پٹی میں حماس کی اتھارٹی کو ختم کرنے میں مدد ملے گی۔ اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ ایجنسی کے خلاف میڈیا اور سفارتی جنگ جاری رکھنا اہم ہے۔”مغربی کنارے میں کوآرڈینیشن”اسی دوران، اسرائیلی سیکیورٹی ذرائع نے کہا کہ مغربی کنارے میں فلسطینی سکیورٹی سروسز کے ساتھ سیکیورٹی کوآرڈینیشن اچھی طرح سے جاری ہے، اور یہ کہ اتھارٹی مغربی کنارے میں معاشی بحران سے گزرنے کے باوجود استحکام برقرار رکھنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔ذریعے نے نشاندہی کی کہ اسرائیلی حکام جنگ کے آغاز سے ہی غزہ کی پٹی میں مقامی فورسز کی شناخت کے لیے کام کر رہے ہیں، تاہم، اسے حماس کے بجائے حکومت کی باگ ڈور سنبھالنے کے قابل کوئی ممکنہ مقامی قوت نہیں ملی۔رفح میں زمینی کارروائی کرنے کی یہ اسرائیلی تیاریاں غزہ کی پٹی کی 2.3 ملین آبادی کے نصف کے جنوبی شہر رفح میں جمع ہونے کے درمیان سامنے آئی ہیں، جہاں ان میں سے بہت سے لوگ خیموں میں رہتے ہیں اور انہیں خوراک کی شدید قلت کا سامنا ہے۔غزہ کے شہریوں کے لیے رمضان شدید بھوک، مسلسل نقل مکانی، خوف اور اضطراب کے ساتھ ساتھ، رفح پر فوجی آپریشن کے خطرات کے درمیان آیا ہے۔کل، اتوار، اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی برائے فلسطینی پناہ گزینوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ محصور فلسطینی پٹی میں ہر جگہ بھوک ہے، اس بات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہ شمالی غزہ کی صورت حال افسوسناک ہے، کیونکہ بار بار اپیل کرنے کے باوجود زمینی امداد روک دی جاتی ہے۔

پاکستان

حکومت کی طرف سے تحفہ عید

پٹرولیم مصنوعات کی نئی قیمتوں کا نوٹیفیکیشن جاری پٹرول کی قیمت میں 9 روپے 66 پیسے فی لیٹر اضافہ کا فیصلہ، نوٹیفیکیشن ڈیزل کی قیمت میں 3 روپے 32 پیسے...

مالاکنڈ خاص پہاڑی روڈ پر یہ مزار کس کا ہے

مالاکنڈ خاص پہاڑی روڈ پر یہ مزار کس کا ہے؟پڑھیئے اور جانیئے ایک اہم تاریخی گوشہ ۔۔۔۔ تو سب دوستوں کی دلچسپی کی خاطر آج اس مزار کے حوالے سے یہ پوسٹ...

مہر_فاؤنڈیشن  شدید مالی مشکلات کا شکار ہے

#ہمدردانہ_اپیل ملک میں بدترین معاشی بحران#مہر_فاؤنڈیشن  شدید مالی مشکلات کا شکار ہے کیونکہ عطیات دینے والے اپنے خاندان ، پڑوسیوں ، ہمسایوں کی مدد...

فردوسی اور محمود غزنوی

مشہد میں دو دن (2) **فردوسی کی شہرت جب محمود غزنوی تک پہنچی تو اس نے اسے بلایا، شعر سنے اور وعدہ کیا تم جب شاہ نامہ مکمل کر لو گے تو میں تمہیں ہر شعر...

اسلام

کیا آپ ان سات سوالوں کے جواب جانتے ہیں ؟

سوال نمبر ۔1:جنت کہاں ہے؟ جواب:جنت ساتوں آسمانوں کے اوپر ساتوں آسمانوں سے جدا ہے،کیونکہ ساتوں آسمان قیامت کے وقت فنا اور ختم ہونے والے ہیں،جبکہ جنت کو...

‏ببر شیر کـو قـتل کرنے والے صحـابـیؓ

‏ببر شیر کـو قـتل کرنے والے صحـابـیؓواقعہ کچھ یوں ہے کہ مسلمان فوج اور ایران کی فوج جنگ کے میدان میں جب آمنے سامنے آئے تو مسلمان یہ دیکھ کر حیران اور...

ایک اور عافیہ. مصر کی ایٹمی سائنسدان حسام شلابی

ایک اور عافیہ. ‏یہ حسام شلابی ہے، جو مصر کی سب سے کم عمر ایٹمی سائنسدان ہے، اور وہ ان دس طالب علموں میں شامل ہے جو پہلے مصری ایٹمی ری ایکٹر کو ڈیزائن...

اذکار الصباح

اذکار الصباحأَعُوذُ بِاللهِ مِنْ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ۔بسم اللہ الرحمن الرحیم۔...

کالم

وہ میری عادت ہے میری قاری ہے میری ساتھی ہے میں رخصت کرتے ہوئے اور بعد میں کیا محسوس کروں گا احساس بہت تکلیف دہ ہےتحریر ۔ساجد آمان ۔                   میری بیٹی کی رخصتی 30 اپریل 2023 کو طے ہے، یوں #شادی کی تقریبات یکم مئی کو مکمل ہوں گی یوں معاشرتی معنوں میں یہ ایک خوشی کی بات ہے مگر میں دل گرفتگی میں ہوں ہانیہ ساجد امان کی پیدائش تب ہوئی تھی جب ہماری رہائش لاہور میں تھی۔ بہت اچھے محل وقوع اور بہترین پڑوس میں رہتے ہوئے بھی آپ مادر وطن میں نہیں ہوتے تو دوسرے درجے کے شہری بحر حال ہوتے ہیں خوا آپ کتنے ہی باوقار اور با اعتماد محسوس کرے آپ پٹھانوں کے گھر کے نام سے پکارے اور جانے جاتے ہیں۔ یہ عجیب قسم کا امتیاز ہر جگہ ہوتا ہے ہم بھی سات پشتوں تک کسی کو گرین کارڈ نہیں دیتے پنجابی ، کشمیری پہچان اور تاریخ کے ساتھ ضرور لگاتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر انسانی خصوصیات و خصلت سے بڑھ کر اس کی نسل میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔ کتوں،بلیوں، گائے ، بھینسوں میں بھی ہمارا طرز ایسا رہتا ہے جو شاید با معنی بھی ہے مگر انسانی نسل میں ذیلی نسل پر اصرار مجھے اپنی آنا کی تسکین ہی لگتا ہے۔ لاہور میں رہتے ہوئے تین چوتھائی پاکستان میری سلطنت تھا جس کے دورے میری مزدوری تھی اور اسی سے کمائی تھی کشمیر، گلگلت بلتستان ، خیبرپختونخواہ ، بالائی پنجاب ، وسطی پنجاب ، جنوبی پنجاب میں کوٹ سبزل تک پنجاب و سندھ کا آخری قصبہ میرے رحم کرم پر دیکر مجھے قابل رحم کیا گیا تھا یوں میں گھر میں گندے کپڑے دھلوانے و استری کروا کر بھاگ نکلنے تک ممبر تھا میری بچی مانوسیت کے حد تک میرے ساتھ تب پہنچی جب میں نے دیکھا کہ بہت چھوٹی ہے میں گھر سے گاڑی نکال رہا ہوں وہ ماں کی گود میں ہے اور میری طرف لپک رہی ہے اس دن گاڑی نکال کر سیاہ تارکول پر دوڑتے ہوئے اپنی بے بسی اور گویا غلامی پر بہت رنجیدہ تھا۔ 2009 میں جب مجھے کراچی جانا پڑا تو فیملی کراچی لے جانا شاید ممکن نہیں تھا کراچی ٹارگٹڈ کلنگ اور نسلی فساد کے بد ترین آگ میں جل رہا ، شمالی پاکستان فرقہ واریت اور عسکریت پسندی کی شدید لپیٹ میں تھا اگر عملی طور زندگی کہیں پر سکون تھی وہ پنجاب میں تھا ، جہاں میرا خاندان سماجی تنہائی کے احساس میں دہرا ہو رہا تھا اور کوئی ٹھوس وجہ نہیں تھی کہ رہائش لاہور میں ہی رکھی جائے۔ سوات شفٹ ہونے کے بعد میں پاکستان کے ایک آخری کنارے اور خاندن دوسرے آخری کنارے پر تقسیم ہوگیے۔ ایک خلیج نا قابل برداشت و عبور حائل ہوگیا ۔ پیشہ ورانہ زندگی کی یاداشتوں پر مبنی الگ سے ایک تفصیلی بحث لکھنے کا پروگرام ہے جس کے کئی نوٹس اور یاداشتوں پر مبنی صفحات پہلے ہی لکھ چکا ہوں یقیناً پیشہ ورانہ زندگی سے تعلق رکھنے والوں کی رہنمائی اگر نہیں ہوگی محضوظ ضرور ہونگے باس یا افسر کا انتخاب آپ نہیں کرتے مگر ایک آئیڈیل باس کی امید ہر کوئی کرتا ہے پیشہ ورانہ زندگی میں مختلف افسران کے نیچے کام کرنے کا موقع ملا جن میں انتہائی ایماندار ، صاف گو اور راست باز لوگ بھی رہے اور ایسے بھی رہے جن کو غصے کے علاؤہ کچھ نہیں آتا تھا۔ ایسے مصنوعی دانشور بھی دیکھے جو گوگل کرکے دھاک بٹھانے میں ماہر اور کینہ پروری میں یکتا تھے۔ ایسے بھی جو احساس کمتری کے مارے مسخروں کی طرح اشارے کرتے اور جبر کرتے کہ ان کا احترام کیا جائے۔ ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم کے مصداقمالک کے سامنے اپنے وجود کی نفی کرنے والے ، زاہد و عابد بن جانے والے اور چمچے مسکے لگا کر نوکری پکی کرنے والے اور زیردست لوگوں کے لیے آسمان ہمیشہ نیچے رکھنے والے بھی قریب سے دیکھے پیشہ ورانہ زندگی میں سختی اور تندی ملازمت کا بحرحال تقاضا ہوتا ہے میں جب بھی اپنے خاندان سے ملا اپنی بیٹی سے جدا ہونا پھر سب سے مشکل رہا مجھے احساس ہی نہیں ہوا کب اس نے بولنا شروع کیا چھوٹی چھوٹی باتیں مگر پہلا لفظ اس کا پاپا ہی تھا جو اس نے پہلا مکمل ادا کیا تھا 2016 میں مجھے کمر کی تکلیف شروع ہوئی تو کئی دفعہ مجھے بیڈ ریسٹ کا مشورہ ملا ۔ تکلیف میں عجیب سا سکون ملتا میری بیٹی دیوانگی کی حد تک مجھ سے منسلک رہی اور میری تکلیف ختم ہوکر پھر کام پر طویل جدائی میں نکلتا تو اس کے لیے دعا مشکل رہتی کہ میری بیماری طویل ہو کہ میں گھر پہ رہوں یا میری تکلیف ختم ہوئی پھر کھبی نہ آئے اگر کسی کو میرا میری بیٹی کے ساتھ رقابت کا عجیب سے جزبہ ہوتا وہ میری بیوی کا ہوتا وہ کہتی نہ نہ لڑکی ہے اس کی ہر خواہش کے آگے سرنگوں ہونا ایک دن ضرور رولائے گا۔ لڑکی ہے لڑکا نہیں ۔ اور مجھے احساس محرومی آ پکڑتی میری بیوی نے میرا بہت ساتھ دیا آدھی محبت آدھی خاندانی دلچسپی نے ملکر میری شادی ممکن کی اس نے بہادری اور جوان مردی سے میری زندگی میں سہولت دی۔ رونا دھونا اور شکوہ شکایت سے آگے مجھے خبر نہ ہونے دی بچوں کے سکول ، ڈاکٹر ، کپٹروں کے فکر کروں لاہور جیسے دیار غیر میں بھی کم از کم یہ فکر کھبی رکاوٹ نہیں بنی میں چار بچوں کے ساتھ پانچواں بچہ بن کر پلتا رہا ہوں 2018 کے مارچ میں جب مجھے بیماری کے سبب ملازمت چھوڑنی پڑی رہی تھی میری بیٹی بہت خوش تھی جبکہ میری بیوی مستقبل کی بے یقینی کا ذکر کرتی اور کہتی کروگے تو کیا اس کا جواب میرے پاس بھی نہیں تھا میں جو 1992 سے ایک نئی شناخت کے ساتھ 1997 میں شادی کے 2000 میں عملی طور پر شہر چھوڑ چکا تھا اور اٹھارہ انیس سالوں میں شہر مجھے بھول چکا تھا میری شناخت ایک اجنبی کی سی تھی جس کو رشتہ دار اور کچھ قریبی جاننے والے بھلا نہیں پائے تھے۔ میرے لہجے پر وقت کے نشان تھے اور صورت بھی مسافت میں ڈھل چکی تھی اپریل 2018 کے بعد ایک نئی اور مختلف زندگی شروع کرتے وقت ہر دفعہ مایوسی اور بے یقینی نے استقبال کیا 2018 میں شروع کرنے والے کاروبار پر اگلے ہی سال فروری کے آخر میں کرونا وبا نے ترقی کے دروازے بند کر دئے جو ابھی پورا ایک بھی نہیں گزار سکا تھا اور ابھی ابتدائی جدوجہد میں تھا میں نے تمام افشنز ختم کر رکھے تھے کہ میں دوبارہ ملازمت شروع کروں یا کاروبار کی نوعیت بدل دوں جس کی مشورہ ہر طرف سے مل رہا تھا مگر میں ایک طویل عرصہ جدائی اور بغیر شناخت کے رہ کر حوصلہ نہیں کر پا رہا تھا معیار زندگی آمدن کی کمی کے ساتھ پہلے ہی دن بہ دن خراب ہو رہا تھا اور اس کا اثر پورے خاندان کے اعتماد پر پڑ رہا تھا مگر میری بیٹی مجھے حوصلے دیتی اور کہتی شروع میں ایسے ہی ہوتا ہے ہمارے پاس سب کچھ اور سب سے بڑھ کر اپ۔ میں اس کی خواہش ساتھ رہنے کی تمنا سمجھتے ہوئے اس سے خود کو مطمعن کرتا میری خواہش تھی کہ وہ پڑھے اور جتنا پڑھ سکے پڑھ پائے وہ پوچھتی پاپا اگر مجھے ملک سے باہر جانا پڑ جائے تعلیم کے لیے تو آپ کیا محسوس کریں گے میں کہتا بہت ہی غرور و فخر اور وہ بہت خوش ہوتی افسوس وہ صرف میٹرک تک پہنچ پائی میں ہار گیا کہ اس کا رشتہ کروں سب کی یہی خواہش تھی اور دنیا کی سب سے مختلف بیٹی جس سے ہر بات کرنے اور سننے کی طاقت رکھتا تھا شاید اس رشتے پر کوئی بات نہ کر سکا کیونکہ شادی کی بات بلکہ موضوع پر بپھر جانی والی اس رشتے کے ہونے کی متمنی لگ رہی تھی مجھے الفاظ سننے کی ضرورت نہیں تھی میں رویہ پڑھ رہا تھا میری بیوی جس سے ہر جنم ہر بار شادی کرنے کو ترجیح دونگا اور واحد ترجیح رہے گی بھی کھل کے نہیں کہہ رہی تھی مگر مجھے رشتے کی مخالفت سے روک رہی تھی میرا داماد میری بہین کا بیٹا میری پھوپھی کا پوتا میرے سامنے ہے جو ہمیشہ ہی مجھے اتنا عزیز رہا انجینرنگ کرکے ابھی فارغ ہوا ہے وہ کئی بہنوں کا اکلوتا بھائی اؤر میری بیٹی تین بھائیوں کی اکلوتی بہن معلوم نہیں معاشرتی طور پر یہ بہت خوشی کی بات ہے اور میں خوش ہوں سب بہت خوش ہیں مگر بیٹی کی جدائی کا درد ہر خوشی پر غالب ہے معلوم نہیں یہ پیار ہے انسیت ہے یا خود غرضی کہ میری بیٹی ہوتے ہوئے بھی وہ مجھے اس کے بیٹے کی طرح سلوک کرتی رہی ہے۔ میرے آنے کا انتظار ، میرے کھانے کی فکر ، میرے سونے جاگنے کے خیال ۔ میری طبیعت اور موڈ کی بخوبی واقفیتایسا شاید سلوک میں کھبی نہ پا سکوںہر لمحے ایک آواز اور اس پر اگلے ہی لمحے دلفریب خوشگوار مسکراہٹ کے ساتھ موجودگی اور کسی بھی فرمائش پر بغیر کسی ماتھے پر شکن کے فورآ سے پیشتر عمل پچھلے سال کی تحریر

گمشدہ سوناروس کے صوبہ کیمیروو کے گورنر امان تولی ایو نے صوبے کے باشندوں سے اپیل کی ہے کہ کولچاک کا گمشدہ سونا تلاش کریں۔ان کو امید ہے کہ اگر کسی کو اس مہم میں کامیابی نصیب ہو گئی تو اس خزانے کا آدھا حصہ صوبے کے بجٹ میں شامل کیا جا سکے گا۔1917 میں روسی سلطنت میں انقلاب آ گیا تھا۔ خانہ جنگی شروع ہو گئی تھی۔ بالشویکوں کے خلاف لڑنے والے ایک دھڑے کی سرکردگی ایڈمرل الیکساندر کولچاک کر رہے تھے۔1918 میں انہیں روس کا حکمران اعلٰی قرار دے دیا گیا تھا۔ ملک میں محفوظ سونے کے ذخیرے کا ایک بڑا حصہ ان کے ہاتھوں میں تھا۔ یاد دلادیں کہ پہلی جنگ عظیم سے پہلے روس دنیا میں مقدار کے حوالے سے سونے کا تیسرا بڑا حامل ملک تھا۔جلد ہی الیکساندر کولچاک کو گرفتار کر کے گولی مار دی گئی تھی۔ سونا سوویت حکومت کے ہاتھ لگ گیا تھا لیکن اس میں تب کے حساب سے تئیس کروڑ ساٹھ لاکھ ڈالر کا سونا کم تھا۔ یہ سونا کہاں چلا گیا محقق اس کے بارے میں جاننے کی خاطر تقریبا” ایک سو سال سے سر کھپا رہے ہیں۔پرانی دستاویزات کے مطابق سونے کا ایک حصہ ایڈمرل نے فوج کی دیکھ ریکھ پہ خرچ کر دیا تھا۔ کچھ حصہ کولچاک نے چھپا دیا تھا۔ اس بارے میں بہت زیادہ روایات ہیں کہ سونا کہاں مدفون ہو سکتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ جھیل بیکال کی تہہ میں ہے یا پھر سائبیریا کے شہروں تیومن یا سورگوت میں چھپا ہوا ہے۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ سونا سائیبیریا کے ایک چھوٹے شہر تائگا کے نواح میں مدفون کیا گیا تھا۔یہاں 1919 میں کولچاک کی فوج نے قیام کیا تھا۔ ان کے ساتھ سونے کے 29 چھکڑے تھے۔ تاریخی شواہد کے مطابق تائگا کے سٹیشن پر سونے کے 26 صندوق گم ہو گئے تھے۔ مزید تیرہ صندوق اس سے اگلے سٹیشن سے غائب ہوئے تھے۔صوبہ کیمیروو کے گورنر امان تولی ایو نے انہیں صندوقوں کو ڈھونڈ نکالنے کی عوام سے اپیل کی ہے۔ مگر سائبیریا میں سونے کے خزینے سے متعلق قصے اتنے زیادہ اور متضاد ہیں کہ ان میں سے جھوٹے سچے قصوں کو علیحدہ کیا جانا ممکن نہیں۔ ایک قصہ یہ ہے کہ سونا دفن کرنے کا کام ایک قاصد کو سونپا گیا تھا، جس نے جگہ کی نشانی ذہن میں رکھ لی تھی۔ بہت سالوں بعد اس نے خود وہاں سے سونا تلاش کرنے کی سعی کی تھی۔ اس کے بعد اس کی نشان زدہ جگہ پہ کئی بار سوویت خفیہ ایجنسیوں نے بھی کھدائی کی تھی۔دوسرا موقف یہ ہے کہ سونا کولچاک کے ایک جنرل نے چھپایا تھا۔ اس نے سونا ایک جہاز پر لاد کر دریا میں ایک محفوظ مقام پہ پہنچا دیا تھا۔ تیسرا موقف یہ ہے کہ کولچاک کے اہلکاروں نے ہی اس کا ساڑھے آٹھ سو کلوگرام سے زیادہ سونا چرا لیا تھا۔ چونکہ سردیاں تھیں اس لیے انہوں نے سونا چھپناے کی خاطر گڑھے کھودنے کی مشقت نہیں کی تھی بلکہ سونے کی اینٹیں اور دیگر قیمتی اشیاء کئی جھیلوں میں سے ایک میں غرق کر دیے تھے۔ایک سو سال سے کولچاک کا سونا تلاش کرنے کی خاطر سائبیریا کے تائیگا میں دسیوں مہمات میں شامل لوگ جان مار چکے ہیں۔ دانشور کولچاک کی سوانح حیات پڑھ کر اندازہ لگانے کی کوششیں کرتے رہے ہیں کہ خزانہ کہاں مدفون ہوگا۔ کبھی یہاں سے تو کبھی وہاں سے خزانہ تلاش کرنے والوں کو سونے کی ایک ڈلی جس پر زار کی مہر کندہ تھی یا کوئی سونے کا سکہ ضرور ملا لیکن سب نے نفی کر دی کہ یہ وہ نہیں ہے۔ سونے سے بھرے گمشدہ صندوق اب تک دستیاب نہیں ہو سکے ہیں۔ ممکن ہے کہ گورنر موصوف کی اپیل سے خزانے میں دلچسپی لیے جانے کی ایک نئی لہر پیدا ہو اور کولچاک کا گمشدہ سونا تلاش کر لیا جائے۔

خواتین

کیا آپ ان سات سوالوں کے جواب جانتے ہیں ؟

سوال نمبر ۔1:جنت کہاں ہے؟ جواب:جنت ساتوں آسمانوں کے اوپر ساتوں آسمانوں سے جدا ہے،کیونکہ ساتوں آسمان قیامت کے وقت فنا اور ختم ہونے والے ہیں،جبکہ جنت کو...

ایک خوبصورت واقعہ.کہتے ہیں ایک چینی بڑھیا کے گھر میں پانی کیلئے دو مٹکے تھے، جنہیں وہ روزانہ ایک لکڑی پر باندھ کر اپنے کندھے پر رکھتی اور نہر سے پانی...

شیر دل مجاہدہ

غزوہ احد میں جب تک مسلمان غالب تھے حضرت اُمِ عمّارہ رضی اللہ عنہا مشک میں پانی بھر کر لوگوں کو پلا تی رہیں، ان کی کمر سے ایک کپڑا بھی بندھا ہوا...

اصلاحِ خواتین

عورتوں کی اصلاح کی ضرورت جاننا چاہیے کہ جس طرح نفقاتِ حسیہ (نان نفقہ) کے ذریعہ سے بیوی اور اولاد اور متعلقین کی جسمانی تربیت ضروری ہے اسی طرح...

صحت

*ٹیلی کلینک* پاکستان کے ڈاکٹرز کی تنظیم پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن ( PIMA)کا ایک اور خوبصورت انداز .واٹس ایپ پر اپنا مسئلہ لکھ کر یا آڈیو کے ذریعے بھیجیں۔۔کال مت کریں اٹینڈ نہیں ہوگی۔حالات کے پیش نظر ڈاکٹرز نے اللّٰہ کی رضا کیلئے واٹس ایپ پر🩺 *ٹیلی-کلینک*🩺 کا آغاز کیا ہے تاکہ علاج یا کسی بھی طبی مشورے کیلئے مریضوں کو گھر سے نکلنے کی ضرورت نہ پڑے اللّٰہ ہمارے ملک اور پوری ۔ انسانیت کی حفاظت فرمائے ۔🩺ڈاکٹر ظفر اقبالناک کان گلہ0301-7026914🩺ڈاکٹر عمرانماہر امراض گردہ0321-3093663🩺ڈاکٹر وقاص قریشیفیملی فزیشن0320-0724587🩺ڈاکٹر عامر عادلمعدہ جگر آنت0300-8662579🩺ڈاکٹر محمد عارف دل بلڈ پریشر0300-9666875🩺ڈاکٹر عمیر چوہدریچائلڈ اسپیشلسٹ0300-7206935🩺ڈاکٹر آصف لطیفایکسرے الٹرا ساؤنڈ0300-6671026🩺ڈاکٹر اعجاز واہلہشعبہ انتہائی نگہداشت0300-6626115🩺ڈاکٹر نعمان اکرمنیوروفزیشن0300-9459434🩺ڈاکٹر خاور شہزادآرتھوپیڈک0333-6574689🩺ڈاکٹر اعجاز لکامراض چشم0300-9650703🩺ڈاکٹر ذوالقرنینفیملی فزیشن0305-5684628🩺ڈاکٹر رحمن مقبولجنرل سرجن0300-6506144🩺ڈاکٹر ملک آفتاب اسلاممعدہ جگر0300-7258400🩺ڈاکٹر غفران سعیدماہر امراض جلد0322-7611321(واٹسیپ)🩺ڈاکٹر شاہد اقبال گلفیملی فزیشن0322-7611321🩺ڈاکٹر عنبرینگائنی00966-567336011 (واٹس ایپ)*پاکستان اسلامک میڈیکل ایسو سی ایشن*پوسٹ کو زیادہ سے زیادہ صدقہ جاریہ سمجھ کرشئیر  کیجیے:ندیم اقبال رانا[24/02, 00:58] Muhammad Yousuf: *اطلاع عام و اہم معلومات :*  آپ سبکی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ ایشیا کا بڑا کینسر ہسپتال جسکا نامCancer care hospitalکینسر کئیرھاسپیٹل ہےلاھور کے نزدیک رائیونڈ تبلیغی جماعت کے مرکز کے قریب وسیع رقبہ پر تعمیر کیا گیا ہے‏اس ہسپتال نےکام شروع کر دیاھے ہسپتال میں دور دراز سے آئےلوگوںکیلئےقیام گاہ بھی تعمیر کی گئی ہے یہاں پر غریب لوگوں کا علاج قیام وطعام بالکل مفت ھےصرف صاحب حیثیت لوگوں سےعلاج کےمناسب پیسے لئےجاتےہیںیہاں پر افغانستان، خیبر پختون خواہ اور گلگت بلتستان وغیرہ سے مریضآ رھےہیں‏جنکا علاج مفت کیا جا رہاھےکینسر کے لاعلاج مریضوں کو اکثر ہسپتال گھر بھیج دیتے ہیںجہاں وہ بہت تکلیف دہ حالت میں موت کا انتظار کرتےہیںلیکن یہاں پر الحمد للہ 250 بیڈ کا علیحدہ بلاک قائم کیا گیاھےجہاں پر لاعلاج مریضوں کو ڈیتھ (موت) تک رکھا جاتاہے اور انکی زندگی میں‏تکلیف کو ہر ممکن کم کیا جاتاھے اور خدمت کیجاتی ہے یہ بہت بڑی سہولت ھےآپ سب سے گزارش ہے کہ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ اس ہسپتال کےمتعلق آگاہ کریں تاکہ کینسر زدہ مریض اس سہولت سے فائدہ اٹھا سکیںیہاں پر پاکستان کے نامور اور انتہائی تجربہ کار ڈاکٹر صاحبان کی ٹیم کام کر رہی ہے‏ہسپتال میں مریضوں اور انکے لواحقین کیلئےایک عالیشان اور جدید سہولتوں سے آراستہ مسجد بھی تعمیر کی گئی ھے پاکستان نیک و مخیر حضرات کی وجہ سےقائم ھے اور یہ اللہ تعالی کا خاص کرم ہےڈاکٹر شہریار ۔ ماہر کینسر(ہسپتال کےانچارج ہیں)نےبتایا کہ کوئی صاحب جنکو وہ بھی نہیں جانتےہیں ‏روزانہ 250 مریضوں اور ان کے لواحقین کے لئے کھانا بھجوا رہے ہیں ۔ *سبحان اللہ ۔* اس پوسٹ کو بطور صدقہ جاریہ مذید فارورڈ کرتے جائیںشکریہ و جزاک اللہ Hospital Site :1.5 km off Pajian chowk Ijtama road Bypass (Rohi Nala) Raiwind Lahore, Pakistan.‏PHONE No.0092 423 52 18 956-600092 423 53 97 605محمد منصور معیز صاحب۔0300-3253403اس میسج کو  کسی Group میں ارسال کریں۔کسی کی جان بچانے پر اللہ تعالی اپ کو بھی دنیا اور آخرت کی کامیابی عطاء فرمائے . آمین۔۔دعاوں میں یاد رکھنا۔۔